حیات
اور کارنامے
اللہ تعالیٰ کا مقرر کردہ
ضابطہ، واٹل قانون کل نفسٍ ذائقة الموت کے مطابق اس عظیم کارگاہ عالم میں
آنے والی ہر چیز اور ہر جان کو فنا اور موت ضرور آنی ہے۔ ہم
اسکا ہمہ وقت ہر روز مشاہدہ کرتے ہیں حتی کہ وہ انسان جس کو اللہ تعالیٰ
نے خلیفة فی الارض کے عظیم عہدے سے سرفراز فرماکر اشرف
المخلوقات بنایا اور خلق لکم ما فی الارض جمیعًا کے انعام سے
نوازا۔ اس کو بھی اس اٹل قانون و فیصلہ سے مستثنیٰ
نہیں قرار دیا۔ چنانچہ انسان بھی عدم سے وجود میں
آتا ہے۔ اور پھر خالق کائنات کے مقرر کردہ وقت تک زندہ رہ کر موت کا ذائقہ
چکھتا ہے۔ اور دنیا سے چلا جاتا ہے۔ اوراس ہست و نیست سے
کارخانہ عالم میں نہ کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔ ہاں بعض
بندگانِ خدا اور ہستیاں ضرور ایسی ہوتی ہیں، جو
اپنے کردار عمل کی وجہ سے ایک طویل یاد دلوں میں
چھوڑ جاتی ہیں۔ اور اس سے متاثر طبقہ ایک خلاء سا محسوس
کرتا ہے۔ ایسا ہی ایک خلاء مشرقی یوپی
کی عظیم دینی درسگاہ جامعہ مسعودیہ نورالعلوم
بہرائچ کے ایک موقر استاذ مولانا قاری عبدالوحید صاحب نوری
بستوی مرحوم کے انتقال پرملال سے پیدا ہوگیا ہے۔
مولانا حافظ عبدالوحید صاحب مرحوم
موضع سہونڈا، باغ نگر ضلع بستی کے ایک کاشتکار گھرانے میں ۱۴/فروری
۱۹۵۱/ کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد محترم جناب
خوشی محمد صاحب اپنے بچوں کو دینی تعلیم دلانے کے بہت
خواہشمند تھے۔ چنانچہ حافظ عبدالوحید مرحوم جو ان کی سب سے بڑی
نرینہ اولاد تھے۔ ان کو حفظ قرآن کی تعلیم میں لگادیا۔
اورمقامی مدرسہ سے تکمیل حفظ کے بعد مزید صحت و پختگی کے
لئے مرحوم نے ۲۴/فروری ۱۹۶۴/ کو جامعہ
مسعودیہ نورالعلوم کے درجہ حفظ میں داخلہ لیا۔ ابھی
چند ماہ ہی گذرے تھے کہ اچانک جون ۱۹۶۴/ میں
ان کے والد اللہ کو پیارے ہوگئے۔ حافظ صاحب مرحوم ابھی محض ۱۴/سال
کے لڑکے تھے، اور بھائی بالکل چھوٹے چھوٹے تھے، جس سے اندازہ کیاجاسکتا
ہے کہ وہ کیسی ناگہانی مصیبت میں گرفتار، اور کیسی
تشویشناک صورت حال سے دوچار ہوئے ہوں گے۔
مگر علم کے شوق میں والد مرحوم کے
تجہیز و تکفین سے فارغ ہوکر والدہ سے ایک سال میں حفظ
مکمل کرنے کے لیے اجازت حاصل کرکے پھرجامعہ نورالعلوم آگئے، اور اپنی
لگن و شوق سے ایک ہی سال میں حفظ قرآن مع تجوید و قراء ت
مکمل کرلیا۔ اور پھر آگے شعبہ فارسی و عربی میں
داخلہ لیا۔ لیکن گھر کی فکر اور سرپرست نہ ہونا حصول تعلیم
میں حارج ہونے سے بہت زیادہ ملول اور فکرمند ہوئے، تو جامعہ کے سابق
کارگزار مہتمم حضرت مولانا کلیم اللہ صاحب نوری نے ان کو زبردست ڈھارس بندھاتے ہوئے ہر طرح کے تعاون کا یقین
دلایا۔ اور اگلی تعلیم جاری رکھنے کا حکم دیا۔
جس کی وجہ سے موصوف مرحوم نے عربی کے درجات وسطیٰ تک تعلیم
باضابطہ حاصل کرلیا، لیکن درمیان میں اپنے چھوٹے بھائیوں
اور گھر کے انتظام کی فکر نے مزید تعلیم سے ایسی
تشویش میں ڈالا کہ تعلیم چھوڑنا پڑا، تو پھر مربی خاص
حضرت مولانا کلیم اللہ صاحب نوری نے حافظ قاری عبدالوحید صاحب نوری مرحوم کو تقریباً
۱۹/ سال کی عمر میں دسمبر ۱۹۶۹/
کو جامعہ ہذا کے درجہ حفظ میں استاذ مقرر کرادیا، اور اس طرح سے ان کی
معاشی فکر کو دور کردیا۔ اور موصوف مرحوم پوری تندہی
سے اپنے فرائض منصبی پورا کرنے کے ساتھ ساتھ ذہنی و طبعی اَخّاذی
کی وجہ سے اپنی علمی صلاحیت بھی بڑھاتے رہے۔
اور ان ہی ایام میں مولوی، عالم، فاضل دینیات،
فاضل معقولات، اور فاضل طب وغیرہ میں امتیازی نمبرات سے
کامیابی حاصل کی۔ اور جامعہ نورالعلوم کے درجہ حفظ میں
تقریباً ۱۵/ سال تک مسلسل تعلیمی خدمت انجام دیا۔
چنانچہ موجودہ نورالعلوم کے شعبہ حفظ میں اکثر آپ کے تلامذہ خدمت کررہے ہیں۔
$ $ $
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ9، جلد:
89 ، رجب، شعبان 1426ہجری مطابق ستمبر 2005ء